مردانہ وزنانہ بانجھ پن :اسباب ،علامات اور علاج
اولاد کا حصول اور خاندان کی نسلی ترقی ہر انسان کی ضرورت اور
مقدس خواہش ہوتی ہے۔ ایک شادی شدہ جوڑے کی ازدواجی خوشیاں اس وقت تک ادھوری رہتی
ہیں جب تک ان کی گود میں اولاد جیسی نعمت موجود نہ ہو۔ اولاد رحمتِ الٰہی کا ذریعہ
ہے اور بحیثیت مسلمان ہمارا یمان اور یقین ہے کہ اچھی اور صالح اولاد اپنے والدین
کے لئے مغفرت و بخشش کا ذریعہ بھی ہے۔
بے اولادی کا جب بھی ذکر آئے تو ہمارے ذہنوں میں یہی خیال آتا ہے کہ اس کی وجہ
عورت ہے۔ اسی وجہ سے بہت سارے خاندان پریشان ہیں اور خواتین کا معاشرتی استحصال
بھی ہوتا ہے۔ جب کہ یہ ہرگز ضروری نہیں کہ بے اولادی کی وجہ صرف عورت ہی ہو،
موجودہ دور میں میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ بے اولادی کے اکثر مسائل کی وجہ مرد ہیں۔
جس کا سبب ان کا بانجھ ہونا، مردانہ کمزوری، تولیدی جرثوموں کی پیدائش نہ ہونا یا
مطلوبہ مقدار سے کم ہونا اور غیر اسلامی افعال و حرکات کا مرتکب ہونا ہے۔
میں یہاں اس مسئلہ کو آسان سے آسان تر زبان میں لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں اور میں
ہمیشہ کوشش کرتا ہوں کہ انگریزی یا دیگر زبانوں میں موجود مواد کو آسان ترجمہ یا
اصطلاحات میں پیش کروں اور مجھے یقین ہے کہ اگر ان بنیادی مسائل کو آپ سمجھ جائیں گے
تو اس مسئلہ سے نجات کے لئے آپ کو بہت مدد مل سکتی ہے۔بانجھ پن کیوں ہوتا ہے اور
اس کی وجوہات کیا ہیں؟
محققین اور اطباءکے نزدیک میاں بیوی کے درمیان ایک سال تک عمومی وظیفہ زوجیت اور
تعلق قائم رہنے کے باوجود اولاد کا نہ ہونا
بانجھ پن کہلاتا ہے۔
مردوں میں بانجھ پن کی بنیادی طبی وجوہات میں موروثی مسائل، تولیدی جرثوموں کی کمی
یا عدم موجودگی، سرعت ِ انزال، ضعفِ باہ، کثرتِ مباشرت، معدہ کی خرابیوں کی بنا پر
جنم لینے والی جنسی بیماریاں جن میں جریان اور احتلام سرِ فہرست ہیں۔ اس طرح کچھ
نفسیاتی وجوہات ہیں، کاروباری یا مالی پریشانی، کسی مقدمہ یا عدالت کا خوف، دشمن
کا خوف، کسی اہم رشتہ یا چیز کا چھن جانا اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی ذہنی
پریشانی، گھریلو ناچاقی ، میاں بیوی کے باہمی تعلقات میں عدم استحکام و اتفاق، یا
کسی بھی دوسرے غم کی وجہ سے ذہنی مریض بن جانا۔ یہ تمام علامات مرد کے تولیدی عمل
میں شدید پریشانی اور رکاوٹ کا باعث بن سکتے ہیں اور جدید سائنس اس سے پوری طرح
متفق ہے ۔ معاشرتی وجوہات میں غلط اور بے راہ روی کے شکار لوگوں کے ساتھ دوستی،
شراب نوشی، تمباکو و سگریٹ نوشی، لواطت و مشت زنی، عریاں و فحش مواد کا مطالعہ ،
انٹرنیت اور ویڈیوز میں بے حیائی پر مبنی مواد دیکھنا، اپنی منکوحہ یا منکوح کو
چھوڑ کر غیر عورتوں یا مردوں سے تعلقات کا استوار کرنا وغیرہ وغیرہ۔
مذکورہ تمام اسباب و علامات نامکمل ہیں۔ لکھنے کا مقصد صرف ان کی سنجیدگی اور ان
سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کی طرف توجہ دلانا ہے۔ ان تمام علامات کے نتیجے میں
مردوں میں پیدا ہونے والے مسائل میں وقت سے پہلے انزال کا ہو جانا، یا مادہ منویہ
کا انتہائی ناقص و غیر فعال ہو جانا یا تولیدی جرثوموں کا خاتمہ ہو جانا ہے۔ مسلسل
اس عمل کی وجہ سے جنسی خواہش بھی کمزور پڑ جاتی ہے اور انسان زندگی سے مایوس ہو
جاتا ہے۔
خواتین میں بعض اوقات بانجھ پن کی علامات ابتدائی بلوغت سے ہی پائی جاتی ہیں،
معاشرتی، نفسیاتی اور طبی وجوہات کی بنا پر پیچیدگیاں خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہیں۔
خواتین میں لیکوریا اور حیض کی خرابیاں انتہائی خطرناک اور پریشان کن ہوتی ہیں۔ جن
برائیوں کی وجہ سے مرد حضرات متاثر ہوتے ہیں بالکل وہی برائیاں خواتین میں بھی
پائی جاتی ہیں،ا سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے ماحول نے معاشرتی برائیاں اس
قدر عام کر دی ہیں کہ کوئی گھر اس سے محفوظ نہیں۔ الا ماشاءاللہ۔
خواتین میں ایام کی خرابیوں کا معدہ سے براہ راست تعلق ہے۔ شادی میں تاخیر، یا
شادی کے بعد شوہر سے علیحدگی یا کسی وجہ سے دور رہنا، ایام حیض کی خرابی اور
لیکوریا کا باعث بن سکتا ہے۔ خلاف فطرت جنسی عمل، اس میں زیادتی اور اعتدال کی
خلاف ورزی کے نتیجے میں رحم اور بچہ دانی کے امراض، ساتویں یا آٹھویں مہینہ میں
اسقاطِ حمل، یا حمل کا بالکل نہ ٹھہرنا، یا ابتداءمیں ہی ضائع ہو جانا، یا بچوں کا
پیدائش سے قبل ماں کے پیٹ میں مر جانا وغیرہ عمومی مسائل ہیں۔
بعض خواتین میں بیضہ دانی یا بچہ دانی کے درجہ حرارت میں خرابی کا مسئلہ بھی درپیش
ہوتا ہے، اندرونی خرابیوں کی وجہ سے بچہ دانی کا داخلی درجہ حرارت غیر موافق ہو
جاتا ہے اور یہ بیضہ بننے کا عمل خراب کر دیتا ہے جس کی عام طور پر لوگوں کو سمجھ
نہیں آتی اور وہ مردانہ یا زنانہ کمزوریوں کا علاج شروع کر دیتے ہیں، مگرنتیجہ صفر
ہی نکلتا ہے۔۔۔ کیونکہ اصل مسئلہ تو داخلی درجہ حرارت اور اس کی موافقت کا ہوتا
ہے۔ ان تمام مسائل کی وجہ سے عورت کو فولاد، کیلشیم کی کمی ہو جاتی ہے اور ٹانگوں
میں درد، سر کا چکرانا، نظر کی کمزوری، سستی اور کاہلی، لیکوریا اور ایام کی شدید
بے ترتیبی جیسے امراض لاحق ہو سکتے ہیں۔
مردوں میں ان تمام علامات و مسائل کی موجودگی کے بعد، جریان، پیشاب کے بعد قطرے، جنسی
خواہش کا بڑھ جانا مگر انجام نہ دے پانا، یا جنسی خواہش کا انتہائی فقدان، سر درد،
چڑچڑا پن، کام میں دل نہ لگنا، ڈر اور خوف کا رہنا، اعتماد کی کمی، شکوک و شبہات
کا پیدا ہو جانا وغیرہ عام مسائل ہیں۔
بانجھ پن، مردانہ یا زنانہ کمزوری کا علاج سو فیصد ممکن ہے۔ ڈاکٹر یا طبیب سے رجوع
کرنے سے قبل، آپ اس کی وجوہات پر غور کیجئے، عزم کریں کہ جن وجوہات کی بنا پر ان
مسائل نے جنم لیا ہے ،آپ ان سے اجتناب کریں گے۔ اپنی خوراک اچھی کریں اور دل و
دماغ میں سکون حاصل کرنے کے لئے جسمانی طہارت حاصل کریں اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت
سے کریں ،تاکہ آپ کو سکون ملے اور آپ اس پریشانی سے نجات پائیں۔ کسی نیم حکیم یا
غیر مستند معالج کے پاس ہرگز نہ جائیں کہ اس طرح کے لوگ آپ کی بچی کھچی صحت کا بھی
بیڑہ غرق کر دیں گے۔ بنیادی طور پر کسی یورالوجسٹ سے رجوع کریں تاکہ وہ آپ کے
مثانہ، گردہ اور نظامِ بول کا مکمل معائنہ کرے۔ اب اگر ضرورت پیش آئے تو
گائناکولوجسٹ کی مدد لیں۔ مکمل لیبارٹری ٹیسٹ، الٹراساونڈ، پیشاب کے ٹیسٹ اور تولیدی اعضاء کا معائنہ کروائیں۔ یہی
بہترین طریقہ ہے۔ سستے علاج کو ترجیح نہ دیں بلکہ مستند و صحیح علاج کا انتخاب
کریں کہ صحت سب سے بڑی دولت ہے۔
عورت یا مرد اس وقت بانجھ کہلاتے ہیں جب کسی قسم کی کوئی احتیاط نہ کرنے اور طبعی ازدواجی تعلقات کے باوجود شادی کے ڈیڑھ سال بعد بھی ان کے ہاں استقرار حمل نہ ہو پائے۔بانجھ پن کی دو اقسام ہیں۔ابتدائی بانجھ پن اور ثانوی بانجھ پن ۔بانجھ کالفظ عموماً عورت سے منسوب کیا جاتاہے۔اگرکسی کے ہاں بچے کی ولادت نہیں ہوتی تو سارے الزامات عورت پر لگا دیے جاتے ہیں کہ بچہ نہ ہونے کی وجہ عورت ہے۔
حالانکہ سائنسی تحقیق کے مطابق بانجھ پن عورت یا مرد دونوں میں سے کسی کو بھی ہو سکتاہے۔
آج کل نوجوان نسل میں بانجھ پن تیزی سے بڑھ رہا ہے اور اس کی وجوہات میں نیند کی کمی،بے سکونی،ٹینشن اور آلودگی بھی شامل ہے۔یہاں پر ایک بات اور یاد رکھنی چاہیے کہ اگر بچے کی پیدائش جلدی نہیں ہورہی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ عورت یا مرد بانجھ پن میں مبتلا ہے، کیونکہ بعض اوقات ہارمونز کا نظام درست نہ ہونے کی وجہ سے بھی بچے کی پیدائش میں تاخیر ہو جاتی ہے۔ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اگر چند غذاو ں کا استعمال کیا جائے تو بانجھ پن دور ہو سکتا ہے اور ہارمونز میں مثبت تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔یہاں ان غذاوں کا تذکرہ کیا جارہا ہے جو بانجھ پن میں مفید بتائی جاتی ہیں۔
خشک میوہ جات : تحقیق کے مطابق اخروٹ بانجھ پن میں مدد گار ہو سکتے ہیں۔اومیگا تھری فیٹس اور وٹامن ای سے بھر پور اس غذا کو استعمال کرکے مرد توانائی حاصل کر سکتے ہیں جس سے ان کے اسپرم بہتر ہوتے ہیں۔
وٹامن بی اور پروٹین عورتوں کی صحت کے لیے مفید ہوتے ہیں۔بادام کا روزانہ استعمال بانجھ پن میں مفید بتایا جاتاہے۔
ایواکاڈو(Avocado) : ایواکاڈو کو غذائی طاقت کا پاور ہاو
¿س بھی کہا جاتاہے۔اس میں منرلز ،وٹامن ،پروٹین،کار بوہائیڈریٹ اور فائبرکی بھر پور مقدار پائی جاتی ہے۔اس میں وٹامن ای کی کافی مقدار بھی ہوتی ہے جو خواتین کے رحم کی صحت مندی اور افزائش نسل کی قوت کے لیے ضروری ہے۔ایواکاڈو میں موجود فولک ایسڈ اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت کے لیے مفید ہے۔
میٹھا کدو: حلوہ کدوغذائیت سے بھر پور سبزی ہے۔اس میں کئی طرح کے وٹامنز،منرلز،اینٹی آکسیڈنٹس اور زود ہضم فائبر پائے جاتے ہیں۔اس میں بیٹا کیروٹن( Beta Carotene)بھی وافر پایا جاتا ہے جو خواتین میں پروجیسٹران(Progesterone)نامی ہارمون کی پیداوار بڑھانے میں مفید ہے۔
چقندر : چقندر میں ایسے اینٹی آکسیڈنٹس پائے جاتے ہیں جو زیادہ عمر کے باعث لاحق ہونے والے بانجھ پن کو دور کرتے ہیں۔اس کے علاوہ اس میں نائٹریٹ بھی پایا جاتاہے جو نظام دوران خون کو بہتر بناتاہے۔ایسی خواتین جو افزائش نسل کی قوت بڑھانے کی خواہش مند ہوں انہیں چقندر کا جوس ضرور پینا چاہیے۔
انڈا: انڈے کا شمار غذائیت سے بھر پور اشیاءمیں کیا جاتاہے۔انڈے میں بی کمپلیکس وٹامن کو لین(Choline)پایا جاتاہے جو ماں کے پیٹ میں بچہ بننے کے عمل پر مثبت اثرات مرتب کرتاہے۔ایک تحقیق کے مطابق اس کے اثرات پیدا ہونے والے بچے پر تمام عمر قائم رہتے ہیں۔انڈے میں دیگر وٹامنز اور منرلز بھی پائے جاتے ہیں جو عمومی صحت کے ساتھ ساتھ افزائش نسل کی صلاحیت کے لیے بھی انتہائی اہم ہیں۔
اخروٹ: اخروٹ صحت بخش غذائی اجزاءسے بھرا ہوا خشک میوہ ہے۔اس میں پائے جانے والے غذائی اجزاء میں کینسر سے لڑنے کی بھی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔اخروٹ بالخصوص مردوں میں مثانے کے کینسر اور خواتین میں سینے کے کینسر کے امکانات کوکم کرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔اس میں اومیگا تھری چکنائی اور وٹامن ای پایا جاتاہے جو مردوں کے لیے مفید ہے۔اس کے علاوہ اخروٹ میں وٹامن بی اور پروٹین بھی پائے جاتے ہیں۔سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اخروٹ کو اس کی غذائیت کے باعث خشک میوہ جات کا بادشاہ کہا جا سکتا ہے۔روزانہ مٹھی بھراخروٹ کھانا بانجھ پن میں مفید بتایا جاتاہے۔
انار : انار میں وٹامن سی ،وٹامن کے اور فولک ایسڈ سمیت کئی دیگر وٹامنز اور منرلز پائے جاتے ہیں جو جوانی کو دیر پا کرکے انسان کو جلد بوڑھا ہونے سے محفوظ رکھتے ہیں۔اس کے علاوہ یہ اجزاء کینسر کے خلاف بھی مدافعت رکھتے ہیں اور دل کی صحت اور ہڈیوں کے لیے بھی مفید ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ خواتین اگر دوران حمل انار کا جوس پئیں تو اس سے بچے کی دماغی صحت بہتر ہوتی ہے۔
پالک: پالک ایک سستی غذاہے۔یہ ہر انسان کی پہنچ میں ہے۔اس میں وٹامن بی،آئرن پایا جاتاہے جو کہ بانجھ پن کے ازالے کے لیے مفید ہے۔سبز پتوں والی سبزیاں بھی بانجھ پن میں مفید ہیں۔
دالیں: دالیں،لوبیا، چنے وغیرہ پروٹین کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔دالوں کے استعمال سے فرٹیلائزیشن کا عمل آسان ہوتاہے ،یہ حمل ٹھہرانے کے امکانات کو بڑھتاہے۔دالیں اور بیج عورت کی تولیدی صحت کے لیے مفیدہیں۔
بانجھ پن کا ہومیوپیتھی علاج بنیادی طور پر آئینی ہومیوپیتھک
دوائیوں کے انتظامیہ کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے جس کے معاملے کے تفصیلی تجزیہ کے
بعد یہ سب سے موزوں پایا جاتا ہے۔ تفصیلی معاملے کے تجزیے میں مریض کی عمومی جسمانی
اور ذہنی آئینی ساخت کے علاوہ جنسی دائرے میں علامات اور بنیادی وجہ بھی شامل ہے
جو زرخیزی کے عمل میں رکاوٹ ہے اور اسے درست کرنے کی ضرورت ہے۔ بانجھ پن کے لئے
ہومیوپیتھی قدرتی دوائیں ہیں جو مریض کی استثنیٰ کو بڑھا کر جوڑے میں رکاوٹ پیدا
ہونے والے رکاوٹ کو دور کرنے میں مدد کرتی ہیں۔
خواتین میں بانجھ پن کے لئے
. تیزاب اندام نہانی خارج ہونے والے
مادہ کی وجہ سے خواتین میں بانجھ پن کے لیے::
تیزاب اندام نہانی خارج ہونے کی وجہ سے خواتین میں بانجھ پن
کے ل B بورکس اور نٹرم فوس اعلی درجے کی دوائیں ہیں۔ خواتین میں بانجھ
پن کے ل These یہ ہومیوپیتھک دوائیں استعمال کی
جاتی ہیں جہاں اندام نہانی خارج ہونے والے مادے تیزاب ، تباہ کن ہوتے ہیں اور اس
سے نطفے ختم ہوجاتے ہیں۔ Borax خواتین میں
بانجھ پن کی دوا ہے جب اندام نہانی خارج ہونے والے مادہ انڈے کے سفید ، تیزاب ،
متشدد اور گرم کی طرح ہوتا ہے۔ ایسے معاملات میں ، بورکس آسان تصور کی حمایت کرتے
ہیں۔ اگلی دوا نٹرم فوس ان خواتین میں بانجھ پن کی نشاندہی کی جاتی ہے جن میں تیزاب
، پریشان کن ، کریمی ، شہد کے رنگ کی اندام نہانی خارج ہوتی ہے۔ خارج ہونے والے
مادے سے بھی کھٹی بو آتی ہے۔
بہت زیادہ نفع یا طویل ادوار کی وجہ سے خواتین میں بانجھ پن
کے لیے۔
منافع یا طویل عرصے سے خواتین میں بانجھ پن کے ل medicines دو عمدہ
دوائیں کلکریہ کارب اور ایلیٹریس فارینوسا ہیں۔ کیلکیریا کارب بنیادی طور پر اس
وقت استعمال کیا جاتا ہے جب بانجھ پن والی عورت بہت زیادہ فائدہ مند ہوتی ہے اور
بہت دیرپا ہوتا ہے۔ ادوار بھی وقت سے پہلے ظاہر ہوتے ہیں۔ ایلیٹریس فارینوز کا
نسخہ کرنے کے ل the ، اس کی اہم علامتیں بانجھ پن
کی ابتدائی اور متناسب حیض ہیں۔ لیوکوریا ، خون کی کمی ، کمزوری ، تھکاوٹ اور
تھکاوٹ بھی مینورریجیا کے ساتھ برقرار رہ سکتی ہے۔ خواتین میں بانجھ پن کی ان ادویات
میں ، ایلٹریس فارینوسہ بھی تجویز کیا جاتا ہے جہاں بار بار اسقاط حمل کرنے کا
رجحان پایا جاتا ہے۔
. مختصر ، قلیل مدت کے ساتھ خواتین
میں بانجھ پن کے لیے::
پلسٹیلا اور سیپیا چھوٹی ، مختصر مدت کے نتیجے میں خواتین میں
بانجھ پن کے ل suitable مناسب دوائیں ہیں۔ پلسٹیلا ان خواتین میں بانجھ پن کی ایک قدرتی
دوا ہے جس نے اپنے مرض کے دوران ہی حیض کی بے ضابطگیوں کا سامنا کیا ہے۔ حیض ہمیشہ
تاخیر کا شکار ہوجاتے ہیں اور متوقع تاریخ میں کبھی ظاہر نہیں ہوتے ہیں۔ ماہواری
خارج ہونا بھی قلیل ہے اور بہت ہی کم وقت کے لئے رہتا ہے۔ پلسٹیلا پی سی او ڈی میں
مبتلا خواتین میں بانجھ پن کی دواوں کی فہرست میں بھی سرفہرست ہے۔ اگلی دوا سیپیا
ان خواتین میں بانجھ پن کے لئے تجویز کی جاتی ہے جہاں حیض مختصر ، قلیل اور دبے
ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بچہ دانی میں احساس کم کرنے کی ایک نمایاں علامت موجود
ہوسکتی ہے۔
. جنسی خواہش میں کمی والی خواتین میں
بانجھ پن کے لیے:
ایگنس کاسٹس اور سیپیا جنسی خواہش میں کمی کے ساتھ خواتین میں
بانجھ پن کی نمایاں طور پر اشارہ کیا گیا ہے۔ خواتین میں بانجھ پن کی ان دوائیوں میں
اگنس کاسٹس کا استعمال اس وقت کیا جاتا ہے جب جنسی تعلقات کے خلاف نفرت موجود ہو۔
ضرورت سے زیادہ مشت زنی اس کے پیچھے ایک وجہ ہوسکتی ہے۔ اندام نہانی میں شفاف
اندام نہانی سے نجات بھی حاصل ہے۔ اگلی ہومیوپیتھک دوائی سیپیا بھی کم جنسی ڈرائیو
کرنے والی خواتین میں بانجھ پن کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ جماع کے دوران اندام
نہانی درد کے ساتھ ضرورت سے زیادہ خشک ہوسکتی ہے۔ احساس کم کرنا بھی ایک نمایاں
خصوصیت ہے جو ظاہر ہوسکتی ہے۔
نطفہ کو برقرار نہ رکھنے کی وجہ سے خواتین میں بانجھ پن کے
لئے:
سپرموں کی عدم برقراریت سے خواتین میں بانجھ پن کی مختلف ادویات
میں ، نٹرم کارب اعلی درجے پر ہے۔ ناترم کارب ان خواتین کے لئے بہت کارآمد ہے جن
کو منی کے برقرار رکھنے سے جراثیم کشی ہوتی ہے۔ جارحانہ اور پریشان کن اندام نہانی
خارج ہونے والے مادہ بھی موجود ہو سکتے ہیں۔
مردوں میں بانجھ پن کے لئے
. مردوں میں عضو تناسل کے ساتھ
بانجھ پن کے لئے:
عضو تناسل سے مردوں میں بانجھ پن کے ل کچھ اعلی درجے کی دوائیں ہیں۔
جب جنسی خواہش اور جسمانی قابلیت دونوں کی کمی ہوتی ہے تو ہومیوپیتھک ادویات اگنس
کاسٹس کو بہترین طور پر اٹھایا جاتا ہے۔ جننانگوں میں نرمی ، تیز اور سردی ہے۔ ذہنی
دباؤ کے ساتھ نامردی کے لئے کالیڈیم بہترین انتخاب ہے۔ جنسی خواہش موجود ہے لیکن
کمزور عضو تناسل سے جننانگوں کو راحت مل جاتی ہے۔ سیلیکئم مردانہ تعداد میں عضو
تناسل سے محروم ہونے کی وجہ سے بانجھ پن کی مختلف ادویات میں بھی بہترین ہے۔ سیلینیم
تیزی سے اخراج کے ساتھ آہستہ ، کمزور کھڑا کرنے کے لئے معاون ہے۔ غیر منطقی منی
خارج ہونے کی صورت میں بھی موجود ہوسکتا ہے۔
. کم نطفہ شمار والے مردوں میں
بانجھ پن کے لیے::
ایکس رے کم نطفہ سے تعلق رکھنے والے مردوں میں بانجھ پن کی
ادویات کی فہرست میں سرفہرست ہے۔ یہ منی گنتی کو بڑھانے میں مدد کرتا ہے۔ اس سے
نطفے کے معیار اور مقدار کو بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے۔
. آریچائٹس والے مردوں میں بانجھ پن
کے لیے::
کونیم ارچائٹس والے مردوں میں بانجھ پن کی دوائیوں کے چارٹ میں
اعلی درجے کی دوا ہے۔ یہ استعمال ہوتا ہے جب خصیص سوجن ، سخت اور بڑھا ہوا ہوتا
ہے۔ جب مؤثر جنسی خواہش کی تاریخ موجود ہو تو یہ بھی کارگر ہے۔
. آزمائشوں کی بربادی والے مردوں میں
بانجھ پن کے لئے:
سبیل سیرولٹا ٹیسٹوں کے ضیاع (ایٹروفی) کے ساتھ مردوں میں
بانجھ پن کی ایک بہترین دوا ہے۔ یہ میں
Homeopathic Treatment of Infertility: A Medical and Bioethical Perspective
Homeopathic medicine is an alternative medical system was first practiced in Germany more than 200 years ago. Developed by its founder Dr. Samuel Hahnemann, homeopathic treatment is based on two principles. The first specifies that “like cures like”- a disease can be cured by a substance that produces similar symptoms in healthy people. The second principle, commonly referred to the “law of minimum dose” stipulates that very low doses of toxic materials can treat specific symptoms. Homeopathic remedies are composed of a variety of substances derived from plants, minerals, animals, or even potentially toxic materials. The FDA has regulated the use of homeopathic drugs in the United States since 1938, but does not evaluate the remedies for safety or effectiveness .
In this article, we examine the application of homeopathy to medical infertility, a topic that has received little attention in medical journals . We first review how homeopathy addresses and provides potential treatments for various medical conditions related to infertility. We then discuss some of the bioethical concerns related to homeopathy, specifically its efficacy in treating infertility issues. One controversial issue in homeopathy is the lack of acceptable scientific validity in assessing efficacy of homeopathic remedies. We propose that assessing and monitoring the percent of infertile patients that get pregnant within 2 years of homeopathic treatments may provide a scientifically valid method to examine the success rate of homeopathic interventions in achieving pregnancies.
Homeopathic Analysis of Disease and Symptoms
The overall outcome of homeopathy is to determine a specific course of treatment for each patient by following an established protocol for diagnosis. First, the homeopathic physician identifies the cause of the illness, such as infertility, by compiling a comprehensive medical history of the patient, focusing on patient symptoms and inquiring about factors that may aggravate or ameliorate the symptoms. This analysis includes identifying daily times when symptoms are presented and what conditions exacerbate or ameliorate these symptoms. Some symptoms as described by the patient can be uncommon, such as “a headache presented as a sensation that the brain is rocking back and forth inside the skull”; abdominal pain in which “something alive is crawling around inside”. These uncommon symptoms, known in homeopathy as strange, rare and peculiar, oftentimes prove to be the most useful in relaying medical information to the homeopathic physician.
Other critical pieces of information that the homeopath needs to obtain include life-style characteristics of the patient such as food preferences, weather preferences and several other inclinations. Finally, the physician performs a physical exam and obtains past medical history including diagnostic tests, past medications and other non -drug therapies that the patient is taking. He also obtains a familial, social, and occupational history of the patient.
The symptoms of the patient are then matched as closely as possible to those listed in a 200 year- old homeopathic computerized compendium of symptoms arranged by anatomical location referred to as a repertory. These computer databases allow the homeopathic physician to effectively process data by combining rubrics and weighing symptoms in order to account for patient emphasis and eliminating classes of remedies. These computer programs will also generate a chart of likely remedies, and prioritize them in a hierarchal manner, based on the strategic criteria selected. The physical appearance, personality, and behavior of the patient, are also important components of the analysis that cannot be directly analyzed by the computer. During the next step of the analysis, the homeopath assesses whether the symptoms cluster as primarily mental, emotional or physical components of an ailment. This interpretive material is holistically synthesized when choosing an appropriate remedy and formed by combining physiognomy, personality, reported symptoms, traits and generalities. Once a remedy is selected, the homeopath may assess the potency of the remedy that the patient must take.
Specific Infertility Treatments Using Homeopathy
The homeopath first makes the analysis whether infertility is caused by symptoms of the man, woman or both. In this paper we focus on the symptoms of the female partner. Based on the symptoms described by the woman, the homeopath first attempts to improve the patient’s overall health to allow for self-healing, especially in women who experience mental and emotional distress. In one actual case, a twenty-nine year old female patient sought homeopathic infertility treatment after two years of failure to become pregnant. The patient was a tall, large, phlegmatic woman with a fair complexion and a dislike for cold and damp weather. She complained about constipation and low stamina, and fatigue. Her personality reflected both a sense of stubbornness and a caring sensitivity to others’ criticisms and suffering, with a childlike innocence about her. As a child she suffered from febrile seizures that were sometimes associated with middle ear infections. As an adult, her menstrual periods lasted 6-7 days and were described as heavy and associated with lower back and thigh pain. She has never contracted any sexually transmitted disease and only used barrier methods for contraception. Based on her personality and physical symptoms, she was prescribed Calcarea Carbonica 200C to stimulate her overall health and self-healing. Four weeks later, she reported that she had increased energy, improved bowel movements, and less painful menstrual pains. The potency of her dose of Calcarea Carbonica was reduced to 1000c and she was told to return two months later. At the second follow-up visit, her stamina and energy continued to improve and she lost ten pounds. The dose of Calcarea Carbonica was further decreased to 10,000C and told to return in 3 months. Six weeks later, she reported that she was pregnant.
Most cases of infertility are significantly more complex than the one previously described, rendering it difficult for a homeopath to immediately decide upon a remedy. Often, remedies are selected to address specific reproductive symptoms and issues, rather than solely promote self-healing. In the Female Genitalia/Sex Chapter of the repertory in Homeopathy, “Sterility” is a large rubric consisting of 110 remedies. These remedies can be constituted from a diverse array of products such as plants, animals, and minerals. In addition, this rubric may contain substances derived from animal organs (usually sheep) such as pituitary glands, anterior pituitary glands and ovaries. Furthermore, homeopaths also prescribe remedies made from pathological tissue or pathogenic microorganisms such as syphilis, gonorrhea, and Chlamydia. It is useful for the homeopathic physician to consider the etiology of infertility from several different sources, including tubal, ovarian, endometrial, uterine, cervical, or age-related causes.
During the next step of the analysis, the homeopath takes into account whether the patient has undergone an extensive gynecological analysis in other clinics, as he believes that such treatments may affect the course of the homeopathic treatment. For example, the patient may have had hormonal treatments based on their levels of FSH, LH, progesterone, estradiol, and prolactin. Many female patients have undergone a hysterosalpingogram, to search for fallopian tube scarring or abnormalities. Unlike the case mentioned above, the symptoms of complex cases may actually represent multiple disease states within the same individual, or may represent previous illnesses whose treatment was suppressive and whose sequelae may still be present, albeit in subtle form. Hence, there may be multiple layers, each with a complex array of symptoms.
If the patient’s complaints, symptoms and characteristics are mostly physical in nature, then the results of laboratory and radiological assessment gain increased relevance. For instance, if there is a history of sexually transmitted disease, the homeopath may opt to treat the patient with a remedy made from the causative bacterium, such as Chlamydia trachomatis . Even though a patient with gonorrhea was previously treated with antibiotics, prescribing a dose of Medorrhinum 10M (gonococcus) can improve the fertility potential of the patient. In patients exhibiting a history of pelvic inflammatory disease with tubal inflammation the homeopathic physician might prescribe remedies such as Aconite, Apis, Bacillinum, and other remedies for scarring (cicatrix). If endometriosis is an issue, then rubrics for menstrual irregularities can be added. In the case of polycystic ovary disease, the remedy rubric includes Apis, Bovista, Bufo, Cantharis and Oophorinum.
Occasionally, homeopaths may choose to treat infertility by attempting to heal a specific organ. For instance, in the case where birth control contraceptive medication resulted in a pituitary adenoma with concurrent elevated prolactin levels, the homeopath might treat the side effects of contraceptive medication by administering a remedy made from the birth control pill or one of its constituents. This is referred to as a non-traditional isopathic approach to clear the long- term effects of conventional hormonal manipulation.
In some patients, long-term birth control can result in primary ovarian failure and the homeopath chooses a remedy to improve ovarian function. The homeopath believes that Agnus Castus (Chaste Tree) will help normalize reproductive function via the pituitary by balancing FSH and LH levels. Sabal Serrulata will help in cases of polycystic ovary syndrome by reducing excessive androgens. The homeopath may choose a combinatorial approach by prescribing remedies that address overall health of the patient and also remedies directed to specific organs. Homeopaths believe that their ability to treat various syndromes lies in homeopathy’s foundation, a belief in the vital force, an energy that is present in all living beings and maintains internal homeostasis.
Combining the homeopathic approach together with a conventional western-medical approach is also a method used by homeopaths to treat infertility. It is acceptable to treat infertility with homeopathic remedies during the early diagnostic phase of the conventional approach. However, more involved fertility treatments such as in vitro fertilization may be incompatible with homeopathic prescribing.
Ethical and Regulatory Issues Regarding Homeopathy
There are two related bioethical issues surrounding homeopathy. The first is the lack of scientific evidence in understanding the mechanism by which homeopathic remedies improve the health of the patient [3]. Homeopathy is often viewed as a controversial, unscientific medical modality, often sought by those who have not been able to find effective treatment for chronic symptoms using conventional medicine. In most cases, the patient receives a remedy that has been diluted to such an extent that it is chemically composition is water without any active pharmacological agent. The second issue is the homeopathic principle that the vital force of a person impacts homeopathic remedies. How does “vital force” translate into physiological mechanisms? Modern healthcare professionals, in accordance with the Hippocratic Oath and established bioethical principles, have an obligation to provide treatment that is scientifically valid and based on experiment evidence of efficacy. The lack of hard-core scientific evidence and the reliance on undefined vital forces raises major ethical concerns in utilizing homeopathy. Moreover, it is important to consider that among US adults, 2.1% used homeopathy within the past 12 months and treating respiratory and otorhinolaryngology complaints were most commonly treated (18.5%) [4]. These issues underscore a critical question is how should society integrate “common knowledge” and “anecdotal experiences” that goes against existing scientific dogma?
Though the mechanisms by which homeopathic treatments affect human health remains unknown, numerous articles have suggested that homeopathy responses operate via a placebo effect. The phrase Primum non nocere, a Latin expression meaning “First do no harm,” is a fundamental principle of Western medical care. There is little evidence that homeopathy causes any serious side effects. Some physicians believe homeopathy treatment to have a placebo effect and believe that it should be continued. Additionally, they assert that if the results are similarly effective in both traditional treatments, and homeopathic treatments, than homeopathic treatment could be utilized as a viable alternative. In fact, an estimated 30% of men presenting for infertility evaluation use alternative therapies . However, the ethics of placebo research underline that placebos should not be used when a patient’s life is at risk. Physicians do not generally utilize placebo pills for serious diseases that can compromise the life of a patient. In this case, while homeopathic treatment might be utilized for infertility, it would not be suitable for many disorders.
There is a need to identify the underlying mechanisms of homeopathic remedies. Many scientists believe that homeopathy operates through a placebo effect. However, several studies present data that homeopathic remedies are not operating though a placebo response. Several reports, for example, show that homeopathic remedies are effective in treating infants, comatose patients and animals induce oestrus in cows . Another report has shown that homeopathic remedies might be trigger cytolytic activity in breast cancer cells maintained in culture . Finally, as placebos are generally effective within a few weeks and homeopathic remedies may take several months to work, support the concept that the underlying mechanism of homeopathy is not a placebo effect. In addition, there are few studies that examine potential side effects of homeopathy. One study describes homeopathic aggravations as an important consideration in assessing medical side effects of this treatment modality.
There are several reasons for the lack of comprehensive studies on the effects of homeopathy. Current medical procedures and the pharmaceutical industry are rigorously based on evidence and experimentation in order to develop a treatment that is widely applicable to the general population Homeopathy is a highly individualized method tailored to the personal needs of the patient. Balancing these two semi-opposing schools of thought has proven very difficult for those clinicians who want to examine the efficacy of homeopathy in well-designed studies for infertility. This is partly because in homeopathy, each patient may receive a different remedy for a classically defined disease. Thus, obtaining a population of volunteers who are being treated for one particular “disease” is difficult. Additionally, the symptom- and patient personality- based analysis in selecting the appropriate remedy renders it difficult to recruit a large number of volunteers expressing the same symptoms or undergoing the same remedies, while still controlling for a double-blind clinical trials.
In light of these concerns, scientists and bioethicist should consider assessing the efficacy of homeopathy by systematically interviewing patients who have undergone homeopathy and their views on the efficacy of such treatments. Such studies cannot be double-blinded or controlled as in classical clinical trials. Moreover, interpreting their results is scientifically challenging. We propose that homeopathic treatments for infertility offer an added advantage with regards to patient clinical outcomes by asking whether the patient undergoing infertility treatments became pregnant within a year or two after homeopathy treatment began. Recognizing that such a study is based on the testaments of patients but still may provide scientific validity on the medical benefits of homeopathy. Most studies underline that there is insufficient evidence to make a conclusive decision regarding its efficacy . The fact that millions believe in homeopathy is also not in itself scientific proof of its efficacy. Rather, it would be a great service if we gained a better understanding of this alternative medical treatment by trying to design the best and most holistic study possible.
Homeopathic Medicines for Infertility
Homeopathic Medicines for Infertility
Homeopathy treatment of infertility is mainly achieved through the administration of constitutional homeopathic medicines found most suitable after a detailed case analysis. A detailed case analysis includes the general physical and mental constitutional make-up of the patient plus the symptoms in the sexual sphere and the underlying cause that is hindering the fertility process and needs to be corrected. Homeopathy for infertility are natural medicines that help by raising the patient’s immunity to remove the obstruction that is hindering the process of fertility in a couple.
For Infertility in Women
1. For Infertility in Females due to Acid Vaginal Discharges:
Borax and Natrum Phos are top-grade medicines for infertility in females due to acid vaginal discharges. These homeopathic medicines for infertility in females are used where the vaginal discharges are acrid, destructive and kill the sperms. Borax is a medicine for infertility in females when the vaginal discharge is like the white of an egg, acrid, copious and warm. In such cases, Borax favors easy conception. Next medicine Natrum Phos is indicated for infertility in women who have acrid, irritating, creamy, honey-colored vaginal discharges. The discharge also smells sour.
2. For Infertility in Females due to too Profuse or Prolonged Periods (menorrhagia):
Two excellent medicines for infertility in females from profuse or prolonged periods are Calcarea Carb and Aletris Farinosa. Calcarea Carb is mainly used when a female with infertility has too profuse and too long lasting periods. The periods also appear before time. To prescribe Aletris farinose, the main symptoms are early and copious menses with infertility. Leucorrhea, anemia, weakness, tiredness, and fatigue may also persist with menorrhagia. Among these medicines for infertility in females, Aletris Farinosa is also prescribed where a tendency for frequent abortions is present.
3. For Infertility in Females with Short, Scanty Periods:
Pulsatilla and Sepia are suitable medicines for infertility in females resulting from short, scanty periods. Pulsatilla is a natural medicine for infertility in women who have faced menstrual irregularities since their menarche. The menses always get delayed and never appear on the expected date. The menstrual discharge is also scanty and remains for a very short time. Pulsatilla also tops the list of medicines for infertility in females suffering from PCOD. Next medicine Sepia is prescribed for infertility in females where the menses are short, scanty and suppressed. Along with this a prominent symptom of bearing down sensation in uterus may be present.
4. For Infertility in Females with Decreased Sexual Desire:
Agnus Castus and Sepia are prominently indicated medicines for infertility in females with decreased sexual desire. Among these medicines for infertility in females Agnus Castus is used when aversion to sex is there. Excessive masturbation may be a cause behind this. The genitals are also relaxed with transparent vaginal discharges. Next homeopathic medicine Sepia is also used for infertility in females having low sex drive. The vagina may be excessively dry with pain while intercourse. Bearing down sensation is also a marked feature that may appear.
6. For Infertility in Females due to Non Retention of Sperms:
Among the various medicines for infertility in females from non-retention of sperms Natrum Carb occupies highest rank. Natrum Carb is very effective for women who have sterility from non retention of sperms. Offensive and irritating vaginal discharges may also be present.
For Infertility in Males
7. For Infertility in Males with Erectile Dysfunction:
There are some top-notch medicines for infertility in males from erectile dysfunction. Homeopathic medicine Agnus Castus is best picked up when both sexual desire and physical ability are lacking. Genitals are relaxed, flaccid, and cold. Caladium, is the best choice for impotency with mental depression. Sexual desire is present but the genitals are relaxed with weak erections. Selenium is also best among the various medicines for infertility in males from erectile dysfunction. Selenium is helpful for slow, weak erections with rapid emissions. Involuntary semen discharges may also be present.
8. For Infertility in Males with Low Sperm Count:
X Ray tops the list of medicines for infertility in males from a low sperm count. It helps to increase sperm count. It helps in both improving the quality and quantity of sperms.
9. For Infertility in Males with Orchitis:
Conium is the top-grade medicine among the chart of medicines for infertility in males with orchitis. It is used when the testicles are swollen, hard and enlarged. It is also effective when a history of suppressed sexual desire is present.
4. For Infertility in Males with Wasting of Testes:
Sabal Serrulata is one of the best medicines for infertility in males with wasting (atrophy) of testes. It is also the perfect medicine for infertility in males with prostate enlargement or prostatitis.
Causes of Infertility:
Infertility in Males:
Small/undescended testes, Testicular injury, Abnormal/Low sperm count, Erectile dysfunction, Premature ejaculation, Prostatitis, Orchitis, Varicocele, Infections(STD’S including Chlamydia, gonorrhea), Vas deferns/Ejaculatory duct obstruction.
Infertility in Females:
Structural abnormality in uterus/cervix, Endometriosis, Polycystic Ovarian Syndrome(PCOS), Irregular periods, Hormonal imbalance, Pelvic Inflammatory disease(Chlamydia, gonorrhoea), Uterine fibroid, Pelvic T.B., Pelvic adhesions due to infection or following surgery, Blocked fallopian tubes due to salpingitis, or Thyroid disorders.
0 comments:
Post a Comment
THANKS, ANSWER YOU SOON