KIDNEY PROBLEMS



گردوں کی بیماریاں اور علاج

اللہ تعالی نے انسان کو گو گُردوں سے نوازا ہے یہ اصل میں غدود ہوتے ہیں پسلیوں کے نیچے پیٹ کی طرف کمر میں دائیں اور بائیں طرف واقع ہوتے ہیں گردہ 11 سینٹی میٹر لمبا کم و بیش سات سینٹی میٹر چوڑا اور دو یا تین سینٹی میٹر موٹا ہوتا ہے ہر گردے میں دس لاکھ سے زائد ناکی دار غدود نیفران یا فلٹر ہوتے ہیں گردوں میں ایک اندازے کے مطابق 24 گھنٹوں میں پندرہ سو لیٹر خون گزرتا ہے گُردے انسانی جسم کے انتہائی اہم عضو ہیں جو جسم سےزہریلے مادے خارج کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں اور جسم میں باڈی فلوئڈ کا بیلنس رکھتے ہیں اور الیکٹرولائٹس کی مقدار کو پُورا رکھتے ہیں ہمارے جسم میں موجود خون دن میں کئی دفعہ گُردوں سے پاس ہوتا ہے اور گُردے اُسے ہر وقت صاف کرنے میں مصروف رہتے ہیں اورخون میں موجود نمک اور پانی اور منرلز کو ایڈجسٹ کرتے ہیں ہماری خوراک اگر ٹھیک نہ ہو تو خون میں موجود فاضل گندگی گُردوں میں جمع ہونی شروع ہوجاتی ہے اور ان کے کام کرنے کی صلاحیت کو سُست کر دیتی ہے اور اگر یہ کسی بیماری کا شکار ہوجائیں تو یہ کام کرنا بند بھی کر دیتے ہیں اور ایسے میں ان کا علاج جہاں کافی مہنگا ہے وہاں مریض کو انتہائی تکلیف سے گُزرنا پڑتا ہےانٹرنیشنل کڈنی فاوندیشن کے مُطابق دُنیا میں کئی ملین افراد گُردوں کی بیماری کا شکار ہیں اور ہمارے مُلک پاکستان میں مریضوں کی ایک بڑی تعداد اس بیماری میں مُبتلا ہےپانی زندگی ہے اور اسے زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا چاہیے مگر حد سے نہیں بڑھنا چاہیے ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ ایک مرد کو دن میں کم از کم 13گلاس پانی ضرور پینا چاہیے اور خواتین کو کم از کم 8 گلاس پانی روزانہ پینا چاہیےپانی گُردوں سے فاضل مادوں کی صفائی میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور Waste کو گُردوں سے نکال کر پیشاب کے ذریعے جسم سے خارج کردیتا ہے

گُردوں کے امراض جدید تحقیق کی روشنی میں
گردہ انتہائی نازک عضو ہے یہ انتہائی پچیدہ فرائض سر انجام دے رہا ہے اللہ تعالی کا بنایا ہوا یہ عضو انتہائی باریکی کے ساتھ جسم کے فاسد مادوں کو فلٹر کرنے کا کام۔سرانجام دیتا ہے اس کی انتہائی باریک جھلیاں جسم کو فاسد مادے سح صاف رکھنے میں مدد دیتی ہے ایک گردے میں عممومی طور پر دس لاکھ فلٹر یونٹس پائے جاتے ہیں قدرت کی۔باریکیوں کا اندازہ لگائیے انسان ایک لاکھ تو کیا اتنے چھوٹے سے گردے میں ایک۔ہزار فلٹر یونٹس لگانے کے قابل بھی نہیں اور پھر انہی فلٹر یونٹس کے مابین فاصلہ بھی پایا جاتا ہے یہی فلٹر یونٹس خون اور پیشاب کی نالی کے درمیان ایک واضح رکاوٹ ہیں اس میں انتہائی باریک اور کسی دروازے کی طرح تین تہی خلیے ہر بڑی چیز کے اخراج کو روکتے ہیں ان دروزاہ نما خلیات سے انتہائی باریک مالیکیولز ہی خارج ہو سکتے ہیں جبکہ سوڈیم اور پوٹاشئیم کے مالیکیولز کو پیچھے ہی روک لیا جاتا ہے ایک خطرناک مرض ایف ایس جی ایس کہلاتا ہے

اس بیماری میں گردوں کے انتہائی باریک اور مائیکروسکوپ سے دکھائی دینے والے فلٹر یونٹس متاثر ہو جاتے ہیں یہ یونٹ جسم۔کو خون میں پیدا ہونے والے بعض کیمیکلز سے پاک کرتے ہیں لیکن اگر یہی فلٹر یونٹس خراب ہو جائیں تو ان کے اندر سے یہی مائع یا کیمیکلز رسنا شروع ہو جاتے ہیں ان باریک سے سوراخوں سے ایک اہم اور خاص قسم کی پروٹین ایلبومن رسنا شروع ہو جاتی ہے یہ پروٹین خون کی کیمسٹری ہر اثر انداز ہوتی ہے خون کے ذریعے سے یہ جسم کے مختلف حصوں میں پھیل جاتی ہے پروٹین کی ان دونوں اقسام کا رسنا ٹھیک نہیں یہ دونوں پروٹینز اپنی اپنی جگہ مختلف امراض کو جنم۔دیتی ہیں ابتدائی طور پر تو اس خرابی کو دور کیا جا سکتا ہے لیکن زیادہ وقت گزرنے کی۔صورت میں یہ مرض لاعلاج ہو جاتا ہے دنیا بھر میں ساٹھ کروڑ سے زائد افراد گردوں کح مختلف امراض میں مبتلا ہیں پاکستان اس حوالے سے آٹھویں نمبر پر ہے پاکستان میں بیس ہزار سے زائد افراد گردوں کے دائمی امراض کے باعث جاں بحق ہو جاتے ہیں بیرون ملک اس کے پھیلاو کی وجوہات میں حرام مشروبات کا استعمال بھی شامل ہے جبکہ ہمارے ہاں ادویات کا بے تحاشا پھیلاو اس کے پھیلاو کی۔بڑی وجہ ہے طاقتور دواوں کا اندھا دھند استعمال گردوں کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے بہت سے مریض اپنے طور پر پانچ ہانچ سو گرام کی گولیاں کھا جاتے ہیں ان اصلی اور جعلی ادویات کا بے تحاشا استعمال نہ صرف گردوں کو بلکہ دوسرے اعضاء کو بھی متاثر کیا ملاوٹی اور ناقص خوراک غیر معیاری پانی موٹا پا ذہنی پریشانیاں پتھری اور ذیا بیطس سمیت کئی وجوہات ہیں

اس کی ایک اور وجہ جنک فوڈ کا بے تحاشا استعمال ہے بہت سے لوگ سردیوں میں پانی نہیں پیتے اور گرمیوں میں پانہ مطلوبہ مقدار میں دستیاب نہیں خاص کر جسمانی مشقت کرنے والوں کو صاف پانی نہیں ملتا پنجاب کح پسماندہ۔علاقوں کے بیشتر لوگ اپنے مرض سے آگاہ ہی نہیں ہوتے انہیں گردے کی خرابی کا علم اکثر اس وقت ہوتا جب یہ مراض لاعلاج ہو گیا ایسے لوگوں کو اس کے بارے میں۔شعور دے کر بہت سی زندگیوں کو بچایا جا سکتا ہے گردے کی پیوند کاری کو ایک محفوظ طریقہ تصور کیا جاتا ہے مگر در حقیقت یہ اتنا سادہ اعر آسان کام نہیں پیوند کاری کے بعد اگر کوئی۔مریض مر جائے تو عام۔طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ جسم کے مدافعتی نظام نے پیوند کاری کو قبول نہیں کیا امریکہ میں تیس فیصد کیسوں میں پیوند کاری ناکام۔رہی پھر یہ سمجھا جاتا ہے کہ جسم کے مدافعاتی نظام نے ہی نئے پیوند شدہ گردے کے خلاف کام کیا جو موت کا سبب بنا ہر کیس میں۔ایسا نہیں ہوتا کئی کیسوں میں یہ ہوتا ہے کہ جب نیا گُردہ لگایا جاتا ہے تو اس میں بھی وہی خرابی یعنی بیماری پھیل جاتی ہے جس سے اصلی گُردہ متاثر ہوا فوری علاج کی صورت میں اس بیماری کو جان لیوا ہونے سے بچایا جا سکتا ہے

ہمارے ہاں مختلف عمروں میں ہونے والی اموات پر کبھی کوئی تحقیق نہیں ہوئی کوئی نوجوان جوانی میں کیوں چل بسا کبھی شماریات کے صوبائی یا وفاقی ادارے نے ڈیٹا اکٹھا نہیں کیا تاہم امریکہ میں نوجوانی میں بڑھنے والی اموات نے معاشرے کو ہلا۔کر رکھ دیا ایک اندازے کے مطابق وہاں تیس سے چالیس سال کے عمر کے نوجوانوں کی اموات میں یورپی ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ اضافہ ہوا ہے اور اس کے پیچھے گُردوں کے امراض ہیں انہوں نے کہا پروٹین کی ایک اور قسم جسے سولیوبل یوکائینز پلازمینوجن ایکٹیوِیٹر ریسیپٹر یعنی suPAR کہا جاتاہے جسم میں اس پروٹین کی۔مقدار مناسب ہونے کی صورت میں گردوں کے ایک خطرناک مرض سے بچا جا سکتا ہے پہلے مرحلے میں یہ بیماری خون صاف کرنےطکی صلاحیت متاثر کرتی ہے بعد ازاں دل کے امراض اور ذیابیطس کا بھی سبب بن سکتی ہے گردوں کے فلٹر یونٹس میں خرابی ناقابل اصلاح ہے یہ کام انسان کے بس میں نہیں درحقیقت متیض کے فلٹر یونٹس بُری طرح جُھلس جاتے ہیں انہیں ٹھیک کرنا ممکن نہیں ہوتا

نئی تحقیق کی روشنی میں گردوں کے بعض امراض کا علاج آسان اور ممکن ہو جائے گا کسی بھی بیماری کی صورت میں جسم کا۔قدرتی مدافعتی نظام متحرک ہو۔جاتا ہے بعض اوقات یہ۔نظام جراثیموں کو مارنے کے لیے ضرورت سے زیادہ suPAR نامی پروٹین پیدا کرتا ہے جو نقصان دہ۔ثابت ہوتی ہے اپنے ہی صحت مند نظام کو نقصان پہنچانا شروع کر دیتا ہے امریکہ کے معروف کڈنی سپیشلسٹ جوچین ریزر نے اس پر تحقیق کی ہے وہ رش یونیورسٹی کے میڈیکل سنٹر میں انٹرنل۔میڈیکل کے شعبے کے چئیر مین بھی ہیں انہوں نے طب کی دنیا کے یکسر نظریات کو غلط قرار دیا ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی میں suPAR پروٹین کی مقدار کم پائی جاتی ہے تو پھر وہ گردوں کے امراض سے محفوظ ہے وہ اس مرض کا شکار نہیں بن سکتا ہے انہوں نے یہ تحقیق جانورں کے مالیکیولز پر کی جو گردوں کے اسی مرض میں مبتلا تھے انہوں نے ثابت کیا کہ گردے کے اس مرض سوپار کو کنٹرول کرکے ٹھیک کیا جا سکتا ہے یعنی گردوں کے اس خطرناک مرض کا علاج ممکن ہے

تاہم ان کی اس تحقیق سے کچھ محققین متفق نہیں کیونکہ کلینکل تجربات میںsuPAR کی۔مقدار اور ایف ایس جی ایس میں براہ راست تعلق کی تصدیق نہیں ہوئی تاہم دونوں اقسام کی تحقیقات میں مریضوں میں suPAR کی۔مقدار کو نظر انداز کرنا مشکل ہے اس بات کو بھی جھٹلانا مشکل ہے کہ اس کا تعلق ہارٹ اٹیک ذیابیطس اور قبل۔از وقت موت سے ہے ان کا یہ بھی خیال ہے کہ خون میں ہی ایسی کوئی چیز شامل ہوتی ہے جو پیوند کاری کے بعد گردے پر دوبارہ حملہ کرتی ہے بس ہمیں اسی کو پکڑنا ہے اپنی دس سالہ تحقیق کے دوران انہوں نے خون میں ایلبومن نامی پروٹین کی۔موجودگی اور اس کے گردوں کے بعض امراض سے تعلق کا پتہ چلایا یہ پروٹین گردے کے فلٹر یونٹ سے رسنے کے بعد خون اور پٹھوں میں شامل ہوئی انہوں نے کہا کہ ایک مالیکیول کی مدد سے اس مرض کی تمام۔تفصیلات کا راز پایا جا سکتا ہے یہ مالیکیول ہی اس مرض کے بارے میں بہترین آگاہی دے سکتا ہے

ہومیو پیتھک علاج:

دائمی گردوں کی بیماری جسے دائمی گردوں کی بیماری بھی کہا جاتا ہے ، یہ گردے کی عارضے کی ایک شکل ہے جہاں گردوں کا کام آہستہ آہستہ ایک طویل عرصے سے ختم ہوجاتا ہے۔ اس بیماری میں غیر مخصوص علامات پائے جاتے ہیں اور اس میں بھوک میں کمی ، بیمار ہونا وغیرہ شامل ہیں۔ ہائی بلڈ پریشر یا ذیابیطس والے افراد کو سی کے ڈی ہونے کا زیادہ امکان رہتا ہے۔ اس بیماری سے دیگر پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں ، جیسے قلبی امراض ، خون کی کمی اور پیریکارڈائٹس۔

 

دائمی گردوں کی بیماریوں کے علاج کے لئے ہومیوپیتھی ایک مثالی اور موثر شکل ہے۔ ہومیوپیتھی فطری ہے اور حالت کی تمام بنیادی وجوہات کو درست کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ہومیوپیتھی میں عمدہ علامات اور آئینی اشارے پر بہترین دوا کا انتخاب کرنے سے پہلے غور کیا جاتا ہے۔ یہاں متعدد ہومیوپیتھک دوائیوں کی فہرست دی گئی ہے ، جو گردے کے پتھر کے علاج جیسے دائمی امراض کے علاج کے لئے استعمال ہوتے ہیں ، اس کے ساتھ ساتھ ان علامات کے ساتھ بھی جن کا استعمال کیا جاتا ہے۔

اپس میلیکیفا:

 یہ ہومیوپیتھک دوا  مرض

 کی شدید شکلوں میں استعمال نہیں ہوتی ہے۔ اس قسم کی علامات میں چہرے پر ورم میں کمی لانا ، پیلا ہونا ، سر میں درد ، کمر اور اعضاء میں درد ، ورم میں کمی لانا پلوٹونیم وغیرہ شامل ہیں جب گردے میں سست درد ، پیشاب میں کمی اور تخفیف ہوتی ہے تو یہ استعمال کیا جاتا ہے۔ پیشاب میں اعلی سطحوں اور بلڈ کارپسولوں میں الوبیمین ہوتا ہے۔ جلد میں پھٹ جانا ، اور مریض کو غنودگی محسوس ہوتی ہے۔

آرسنیکم: 

یہ دوا سی کے ڈی کے تمام مراحل میں مستعمل ہے اور ایک بہترین علاج ہے۔ اس کا استعمال بیماری کے بعد کے مراحل میں ہوتا ہے جب مریض کی جلد پیلا ہوجاتی ہے ، اور اس میں موم کی شکل ، زیادہ پیاس اور اسہال پیدا ہوتا ہے۔ پیشاب کا سایہ گہرا اور البمین سے بھرا ہوا ہے۔ رات کے دوران لیٹتے وقت ڈس اسپنیا کے حملوں کا مشاہدہ بھی کیا جاتا ہے۔ ایکونائٹ لینے سے بلغم پیدا ہوتا ہے اور مریض کو راحت ملتی ہے۔

 

اورم موریٹیکم:

 اس ہومیوپیتھک دوائی کا استعمال گردوں کی بیماریوں جیسے موربس برگیٹی جیسے کہ کسی گاؤٹ کی وجہ سے ہوتا ہے یا اسفیلس سے ہوتا ہے۔ ہاضم اور اعصابی پریشانیوں کی نشاندہی کی جاتی ہے۔ ورٹائگو بھی سبب بن سکتا ہے۔

بیلاڈونا: 

گردوں کے ریڑھ کی ہڈی کے خطے میں چھیدنا یا جلانے کے ساتھ ساتھ گردوں کی سوزش کے علاج کے ل Bel بیلاڈونا ایک مثالی ہومیوپیتھک علاج ہے۔ درد ہر بار بڑھتی ہوئی شدت کے ساتھ بار بار ظاہر ہوتا ہے۔

کینتھاریس: یہ ہومیوپیتھک علاج ورم گردہ میں استعمال ہوتا ہے۔ ریڑھ کی ہڈی کے خطے میں ایک کاٹنے کا درد ہے ، پیشاب میں خون ہوتا ہے اور بہاؤ قطرے کی شکل میں ہوتا ہے۔ کینتھارس جراثیم کے ساتھ پوسٹ ڈیفٹرک گردے کی خرابی میں استعمال ہوتا ہے۔

Conavallaria: Conavallaria دل کے عوارض کی وجہ سے ورم گردہ کی صورت حال میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا استعمال اس وقت کیا جاتا ہے جب دل بے قاعدگی سے کام کرتا ہے ، اور اناسارکا اور جیلیوں میں بھی کمی کی وجہ سے ہے۔ 

Best Homeopathy Treatment for Chronic Kidney Disease.

Chronic kidney disease, also known as chronic renal failure, chronic renal disease, or chronic kidney failure, is much more widespread than people realize; it often goes undetected and undiagnosed until the disease is well advanced.

It is not unusual for people to realize they have chronic kidney failure only when their kidney function is down to 25 percent of normal.

As kidney failure advances and the organ's function is severely impaired, dangerous levels of waste and fluid can rapidly build up in the body. Treatment is aimed at stopping or slowing down the progression of the disease - this is usually done by controlling its underlying cause.

Fast facts on chronic kidney disease

Here are some key points about chronic kidney disease. More detail and supporting information is in the main article.

  • Common symptoms include blood in urine, high blood pressure, and fatigue.
  • Causes include diabetesand specific kidney diseases, which includes polycystic kidney disease.
  • There is no cure for chronic kidney disease, which means treatment is focussed on reducing symptoms.
  • Diagnosis commonly occurs after blood tests, kidney scans, or biopsy.

 

Symptoms:

Chronic kidney disease rarely shows symptoms until the later stages, so screening is recommended for those who are at risk..

Chronic kidney failure, as opposed to acute kidney failure, is a slow and gradually progressive disease. Even if one kidney stops functioning, the other can carry out normal functions. It is not usually until the disease is fairly well advanced and the condition has become severe that signs and symptoms are noticeable; by which time most of the damage is irreversible.

It is important that people who are at high risk of developing kidney disease have their kidney functions regularly checked. Early detection can significantly help prevent serious kidney damage.

The most common signs and symptoms of chronic kidney disease include:

  • anemia
  • blood in urine
  • dark urine
  • decreased mental alertness
  • decreased urine output
  • edema- swollen feet, hands, and ankles (face if edema is severe)
  • fatigue (tiredness)
  • hypertension(high blood pressure)
  • insomnia
  • itchy skin, can become persistent
  • loss of appetite
  • male inability to get or maintain an erection (erectile dysfunction)
  • more frequent urination, especially at night
  • muscle cramps
  • muscle twitches
  • nausea
  • pain on the side or mid to lower back
  • panting (shortness of breath)
  • protein in urine
  • sudden change in bodyweight
  • unexplained headaches

Stages:

Changes in the GFR rate can assess how advanced the kidney disease is. In the UK, and many other countries, kidney disease stages are classified as follows:

Stage 1 - GFR rate is normal. However, evidence of kidney disease has been detected.

Stage 2 - GFR rate is lower than 90 milliliters, and evidence of kidney disease has been detected.

Stage 3 - GFR rate is lower than 60 milliliters, regardless of whether evidence of kidney disease has been detected.

Stage 4 - GRF rate is lower than 30 milliliters, regardless of whether evidence of kidney disease has been detected.

Stage 5 - GFR rate is lower than 15 milliliters. Renal failure has occurred.

The majority of patients with chronic kidney disease rarely progress beyond Stage 2. It is important for kidney disease to be diagnosed and treated early for serious damage to be prevented.

Patients with diabetes should have an annual test, which measures microalbuminuria (small amounts of protein) in urine. This test can detect early diabetic nephropathy (early kidney damage linked to diabetes).

 

Causes:

Kidneys carry out the complex system of filtration in our bodies - excess waste and fluid material are removed from the blood and excreted from the body.

In most cases, kidneys can eliminate most waste materials that our body produces. However, if the blood flow to the kidneys is affected, they are not working properly because of damage or disease, or if urine outflow is obstructed, problems can occur.

In most cases, progressive kidney damage is the result of a chronic disease (a long-term disease), such as:

  • Diabetes- chronic kidney disease is linked to diabetes types 1 and 2. If the patient's diabetes is not well controlled, excess sugar (glucose) can accumulate in the blood. Kidney disease is not common during the first 10 years of diabetes; it more commonly occurs 15-25 years after diagnosis of diabetes.
  • Hypertension (high blood pressure)- high blood pressure can damage the glomeruli - parts of the kidney involved in filtering waste products.
  • Obstructed urine flow- if urine flow is blocked it can back up into the kidney from the bladder (vesicoureteral reflux). Blocked urine flow increases pressure on the kidneys and undermines their function. Possible causes include an enlarged prostate, kidney stones, or a tumor.
  • Kidney diseases- including polycystic kidney disease, pyelonephritis, or glomerulonephritis.
  • Kidney artery stenosis- the renal artery narrows or is blocked before it enters the kidney.
  • Certain toxins- including fuels, solvents (such as carbon tetrachloride), and lead (and lead-based paint, pipes, and soldering materials). Even some types of jewelry have toxins, which can lead to chronic kidney failure.
  • Fetal developmental problem- if the kidneys do not develop properly in the unborn baby while it is developing in the womb.
  • Systemic lupus erythematosus- an autoimmune disease. The body's own immune system attacks the kidneys as though they were foreign tissue.
  • Malaria and yellow fever- known to cause impaired kidney function.
  • Some medications- overuse of, for example, NSAIDs (non-steroidal anti-inflammatory drugs), such as aspirin or ibuprofen.
  • Illegal substance abuse- such as heroin or cocaine.
  • Injury- a sharp blow or physical injury to the kidney(s).

Risk factors:

The following conditions or situations are linked to a higher risk of developing kidney disease:

  • a family history of kidney disease
  • age - chronic kidney disease is much more common among people over 60
  • atherosclerosis
  • bladder obstruction
  • chronic glomerulonephritis
  • congenital kidney disease (kidney disease which is present at birth)
  • diabetes - one of the most common risk factors
  • hypertension
  • lupuserythematosus
  • overexposure to some toxins
  • sickle cell disease
  • some medications

Diagnosis:

A doctor will check for signs and ask the patient about symptoms. The following tests may also be ordered:

  • Blood test- a blood test may be ordered to determine whether waste substances are being adequately filtered out. If levels of urea and creatinine are persistently high, the doctor will most likely diagnose end-stage kidney disease.
  • Urine test- a urine test helps find out whether there is either blood or protein in the urine.
  • Kidney scans- kidney scans may include a magnetic resonance imaging (MRI) scan, computed tomography (CT) scan, or an ultrasound scan. The aim is to determine whether there are any blockages in the urine flow. These scans can also reveal the size and shape of the kidneys - in advanced stages of kidney disease the kidneys are smaller and have an uneven shape.
  • Kidney biopsy- a small sample of kidney tissue is extracted and examined for cell damage. An analysis of kidney tissue makes it easier to make a precise diagnosis of kidney disease.
  • Chest X-ray- the aim here is to check for pulmonary edema (fluid retained in the lungs).
  • Glomerular filtration rate (GFR)- GFR is a test that measures the glomerular filtration rate - it compares the levels of waste products in the patient's blood and urine. GFR measures how many milliliters of waste the kidneys can filter per minute. The kidneys of healthy individuals can typically filter over 90 ml per minute.

Complications:

If the chronic kidney disease progresses to kidney failure, the following complications are possible:

  • anemia
  • central nervous systemdamage
  • dry skin or skin color changes
  • fluid retention
  • hyperkalemia, when blood potassium levels rise, possibly resulting in heart damage
  • insomnia
  • lower sex drive
  • male erectile dysfunction
  • osteomalacia, when bones become weak and break easily
  • pericarditis, when the sac-like membrane around the heart becomes inflamed
  • stomach ulcers
  • weak immune system

 

Homoeopathic Treatment:

Chronic kidney disease also known as chronic renal disease is a form of kidney disorder where renal function is progressively lost over a long period. This disease has got unspecific symptoms and includes loss of appetite, feeling unwell, etc. People with high blood pressure or diabetes are more likely to have CKD. This disease leads to other complications, such as cardiovascular disease, anaemia and pericarditis.

Homeopathy is an ideal and effective form of treatment chronic kidney diseases. Homeopathy is natural and tries to correct all the underlying causes of the condition. General symptoms and constitutional indications are considered in homeopathy before choosing the best medicine. Here is a list of several homeopathic medicines, which are used to treat chronic kidney diseases like Kidney Stone Treatment, along with the symptoms in case of which they are used.

  1. Apis mellifica:This homeopathic medicine is not used in acute forms of CKD. Symptoms of this type include edematous swelling on the face, paleness, headaches, pain in the back and limb, edema plutonium, etc. It is used when there are dull aches in the kidney, reduced urination and micturition. The urine contains albumen in high levels and blood corpuscles. Eruption of the skin occurs, and the patient feels drowsy.
  2. Arsenicum:This medicine is used in all stages of CKD and is one of the best remedies. It is used in later stages of the disease when the patient's skin becomes pale, and he develops a waxen appearance, excess thirst and diarrhoea. The shade of the urine is dark and full of albumen. Dyspnoea attacks are also observed while lying down during the night. Taking aconite produces a mucus and the patient gets relief.
    •  
  3. Aurum muriaticum:This homeopathic medicine is used to cure renal diseases such as morbus brightii caused from a gout or from syphilis. Digestive and nervous problems are indicated along with great irritability. Vertigo may also be caused.
  4. Belladonna:Belladonna is the ideal homeopathic remedy for treating inflammation of the kidneys accompanied by piercing or burning pain in the lumbar region of the kidney. The pain reappears repeatedly with increased intensity each time.
  5. Cantharis:This homeopathic cure is used in nephritis. There is a cutting pain in the lumbar region, the urine contains blood and the flow is in the form of drops. Cantharis is used in post diphtheric kidney disorders with dropsy.
  6. Conavallaria:Conavallaria is used in case of nephritis occurring due to heart disorders. It is used when the heart functions irregularly and also in anasarca and ascites because of mitral insufficiency.

0 comments:

Post a Comment

THANKS, ANSWER YOU SOON

Copyright © All Rights Reserved

Designed by THE GREAT HOMEO CLINIC