BREAST CANCER

 






بریسٹ کینسر سے آگاہی: چھاتی کے سرطان کی علامات، تشخیص، طریقہ علاج کیا ہے اور اس سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟

 

بریسٹ کینسر یا چھاتی کا سرطان ہے کیا؟

عورتوں کو ہونے والے کینسر میں اب بریسٹ کینسر سرِفہرست ہے۔

یہ مرض عام طور پر 50 سے 60 برس کی عمر کی عورتوں میں پایا جاتا تھا، لیکن اب کم عمر خواتین بھی اس بیماری میں مبتلا ہو رہی ہیں۔

بریسٹ کینسر کی مریض خواتین نہ صرف پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں پائی جاتی ہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک کی خواتین بھی اس مرض کا تقریباً اسی شرح سے شکار ہو رہی ہیں۔

ابنارمل نشونما کی وجہ سے اگر آپ کو بریسٹ پر گلٹی یا لمپ محسوس ہو تو یہ ممکنہ طور پر کینسر کی علامت ہو سکتا ہے۔‘

اسی طرح اگر گلٹی یعنی ڈِپ ہو یا دونوں یا ایک بریسٹ سخت ہوں تو یہ بھی ممکنہ علامت ہو سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ اگر نِپل سے دودھ کے علاوہ کسی بھی قسم کا ڈسچارج ہو تو یہ بھی ممکنہ طور پر کینسر ہو سکتا ہے اور اس کی تصدیق کے لیے ہسپتال سے ٹیسٹ کرانے کی فوری ضرورت ہے۔'

اگر یہ تمام علامات بغل میں ہوں تو تب بھی یہ بریسٹ کینسر ہو سکتا ہے۔

جبکہ چھاتی کے سائز، ساخت یا ایک پستان کی دوسرے پستان سے مختلف نظر آنے کی علامات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا

خواتین چھاتی میں ہونے والی کسی بھی معمولی تبدیلی کو نظر انداز نہ کریں اور کسی مستند ڈاکٹر کو دکھائیں۔

یہ بیماری ہیریڈیٹری ہے، یعنی ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہو سکتی ہے۔ اسی لیے ’یہ بہت ضروری ہے کہ مائیں اپنی بیٹیوں سے اس خطرناک مرض سے متعلق بات چیت کریں اور باقاعدگی سے چیک اپ کروانے کی عادت ڈالیں۔‘

بریسٹ کینسر کی مختلف سٹیجز کون سی ہیں؟

دنیا بھر میں کینسرز میں سب سے عام قسم پستان کا سرطان ہی ہے۔

اس کے چار مختلف مراحل ہیں، پہلے دونوں بڑی حد تک قابلِ علاج ہیں تاہم تیسرے اور چوتھے مرحلے پر یہ بیماری خاصی پیچیدہ شکل اختیار کر لیتی ہے۔

کینسر کا تعلق دراصل جینیاتی طور پر اس بیماری کی خلاف مدافعت کی کمزوری ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اگر ماں کو بریسٹ کینسر ہے تو بیٹی کو بھی ہو سکتا ہے۔

بریسٹ کینسر کی پہلی سٹیج میں تو چھاتی میں گلٹی بنتی ہے جس کا سائز چھوٹا ہوتا ہے اور اس میں درد ہوتا ہے۔ پہلی سٹیج یہ تعین کرتی ہے کہ اب کینسر بافتوں کو آزادانہ طور پر نقصان پہنچا رہا ہے۔

دوسرے مرحلے میں یہ گلٹی نہ صرف بڑی ہوتی ہے بلکہ جڑیں بھی پھیلتی ہیں، یہ لِمف نوڈز میں داخل ہو گیا ہے اور اس کا سائز ایک اخروٹ یا لیموں جتنا ہے۔

جس کے بعد یہ تیسرے مرحلے میں داخل ہو جاتا ہے۔ تیسرے مرحلے میں اب کینسر آپ کے کم از کم نو لمف نوڈز میں آ چکا ہے جو گردن کی ہڈی اور بغل تک کا حصہ ہے۔ اب یہ سینے میں بیرونی جلد کے قریب ہے۔

چوتھے اور آخری مرحلے میں کینسر لمف نوڈز سے نکل کر اب چھاتی کے گرد دیگر حصوں تک پھیل چکا ہے۔ یہ سب سے زیادہ ہڈیوں، پھیپھڑوں، جگر اور دماغ تک آ گیا ہے۔ اس سٹیج میں طبی ماہرین کے مطابق مریضہ کی جان بچانا مشکل ہو جاتا ہے۔

بریسٹ کینسر کی تشخیص

بریسٹ کینسر کی تشخیص کے لیے میموگرافی سے سینے میں پیدا ہونے والی گلٹیوں کے بڑے ہونے سے پہلے ہی اس کی تشخیص کر لی جاتی ہے۔

میموگرافی چھاتی کے کینسر کی تشخیص کے لیے مخصوص ایک ایسا ایکسرے ہوتا ہے جو کہ سینے میں پیدا ہونے والی گلٹیوں کی تشخیص کر لیتا ہے اور یوں اس کے پھیلاؤ کو روکا جا سکتا ہے۔

خواتین کے لیے بریسٹ کینسر کی وجہ سے موت سے بچنے کے لیے مؤثر ترین طریقہ باقاعدہ سکریننگ ہے۔

پاکستان میں متعدد طبی مراکز میں اس مرض کی مفت تشخیص کی جاتی ہے۔ یہ مفت سکریننگ اور میموگرافی 40 سال سے زائد عمر کی خواتین کے لیے ہے۔ اس کے علاوہ ان مراکز میں بائیوپسی کی سہولت بھی موجود ہوتی ہے۔

ایسی خواتین جن کی عمر 50 سال یا اس سے زیادہ ہو ان کو مکمل طور پر سالانہ سکریننگ کروانی چاہیے۔ اور ان کے ساتھ ساتھ وہ خواتین جو اپنی چھاتی میں کسی قسم کی گلٹی محسوس کریں تو فوراً کسی مستند ریڈیالوجسٹ سے رابطہ کریں تاکہ بروقت تشخیص سے بیماری اور اس سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں سے بچا جا سکے۔

نوجوان لڑکیوں میں ابتدائی ٹیسٹ الٹرا ساؤنڈ کے ذریعے کیا جاتا ہے۔

لٹرا ساؤنڈ آواز کی خاص لہریں ہیں جن کی فریکوئنسی بہت زیادہ ہے اور انسانی کان اس آواز کو نہیں سن سکتے۔ یہ مختلف طریقوں سے بیماریوں کی تشخیص میں استعمال کی جاسکتی ہیں جن میں ہر قسم کی رسولیاں شامل ہیں۔

الٹراساؤنڈ کے ذریعے بریسٹ کینسر کی قبل از وقت یا بروقت تشخیص ممکن ہے۔ اس کے علاوہ ایم آر آئی سکیننگ کی مدد بھی لی جا سکتی ہے۔

مرض سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟

طبی ماہرین کے مطابق بریسٹ کینسر کی ایک بڑی وجہ غلط طرز زندگی ہے۔

اگر خوراک متوازن نہیں تو یہ بھی کینسر کی وجہ بن سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک بہت بڑی وجہ ذہنی دباؤ اور ڈپریشن ہے اور تنہائی کا شکار خواتین کو یہ مرض لاحق ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ خواتین کو بریسٹ کینسر سے محفوظ رہنے کے لیے اپنے شیر خوار بچوں کو ڈبے کا دودھ پلانے کی بجائے اپنا دودھ پلانا چاہیے۔ رات کو بریزیر (زیر جامہ) اتار کر سونا چاہیے، سفید یا جلد کے رنگ جیسی کاٹن کی بنی ہوئی ڈھیلی ڈھالی زیر جامہ استعمال کرنی چاہیے۔

چاروں مراحل کا علاج کیا ہے؟

عام طور پر بریسٹ کینسر کا علاج اس کے مراحل دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ پوری دنیا میں بریسٹ کینسر کا علاج مندرجہ ذیل طریقوں سے کیا جاتا ہے۔

اگر بریسٹ کینسر پہلی سٹیج میں ہے تو لمپ یا گلٹی نکالی جاتی ہے، اس عمل کو لمپیکاٹومی کہتے ہیں۔

کینسر اگر دوسری سٹیج میں داخل ہو چکا ہے تو اس صورت میں بھی اس لمپ کا سائز بڑا ہوتا ہے۔ ایسے میں بھی لمپیکاٹمی کی جاتی ہے۔

پہلی اور دوسری اسٹیج میں بیشتر مریضوں کو کیمو تھراپی کی ضرورت نہیں ہوتی، جبکہ اس بات کے 90 سے 95 فیصد امکانات ہوتے ہیں کہ کم از کم پانچ سال تک ایسا کوئی لمپ نہیں بنے گا۔

جبکہ اس کے بعد کی سٹیجز یعنی تیسرےاور چوتھے مرحلے میں بریسٹ کینسر خطرناک شکل اختیار کر چکا ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں علاج کا طریقہ کیمو تھراپی ہی بچتا ہے یا چھاتی کو سرجری کے ذریعے پورا ہی جسم سے نکال لیا جاتا ہے۔

کیموتھراپی کینسر کے خلیات کو تباہ کرتی ہے لیکن اس کے کئی مضر اثرات بھی ہوتے ہیں۔

تاہم بہت سے مریضوں کو کیموتھراپی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ جاننے کے لیے کہ کیا مریض کو کیمو تھراپی کی ضرورت ہے یا نہیں، آنکوٹائپ ڈی ایکس نامی ایک ٹیسٹ کیا جاتا ہے جس سے یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ بریسٹ کینسر کے دوبارہ ہونے کے کیا امکانات ہیں یا کینسر کتنا خطرناک ہے۔ اس مہنگے ٹیسٹ پر کم از کم تین لاکھ کا خرچ آتا ہے۔

لازمی نہیں کہ علامات کا مطلب کینسر ہی ہو'

چھاتی کے سرطان کی آگاہی دینے والے اداروں کا کہنا ہے کہ چھاتی میں کسی بھی قسم کی تبدیلی سے آگاہ ہونا ضروری ہے اور اسے سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔

تاہم برطانوی ادارے ’بریسٹ کینسر کیئر‘ سے متعلق جین مرفی نہیں چاہتیں کہ لوگ ضرورت سے زیادہ خوف میں مبتلا ہو جائیں۔

وہ کہتی ہیں کہ بس خواتین کو چاہیے کہ وہ اپنے جسم سے واقف رہیں۔ ’آپ کریم یا لوشن لگاتے ہوئے بھی اپنے آپ کو چیک کر سکتی ہیں۔‘

کینسر ریسرچ یو کے کے مطابق کسی علامت کا لازمی مطلب نہیں کہ وہ سرطان ہی ہو۔

’الٹا نپل، نپل سے رطوبت کا اخراج یا سرخی کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ لیکن جلد ہی ڈاکٹر سے معائنہ کروا لینے سے آپ کو موقع مل جاتا ہے کہ آپ کا کامیاب علاج ہو سکے گا۔‘

اکستان میں بریسٹ کینسر کے لیے کام کرنے والی تنظیم پِنک ربن کے چیف ایگزیکٹیو عمر آفتاب کے مطابق ایشیا میں پاکستان میں بریسٹ کینسر سب سے زیادہ ہے اور پاکستان میں ہر نو خواتین میں سے ایک کو بریسٹ کینسر ہونے کا خطرہ ہے۔

ان کے مطابق پاکستان میں نو میں سے ایک عورت کو بریسٹ کینسر ہونے کے خطرے کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں تقریباً ایک کروڑ 20 لاکھ خواتین کو یہ کینسر ہونے کا خطرہ ہے۔ یہ تعداد اسلام آباد کی آبادی سے بھی زیادہ ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں چھاتی کے سرطان کو جنسیت سے جوڑا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے اگر کوئی عورت ان علامات کو جان بھی لیتی ہے تو وہ پہلے تو اپنے خاندان والوں کو بتاتی نہیں اور چھپاتی ہے۔ اگر خاندان والوں کو بتا بھی دیتی ہے تو خاندان والے اس کو باعث شرم سمجھتے ہیں اور علاج نہیں کراتے۔ جب یہ کینسر اگلی سٹیج پر پہنچ جاتا ہے تو اس کا علاج بہت مہنگا ہو جاتا ہے‘۔

ہومیوپیتھک علاج ، جس میں کسی مادے کی خوردبین مقدار موجود ہوتی ہے ، وہ جڑی بوٹیوں کے علاج کی طرح نہیں ہوتی ہیں ، جو مادے کی قابل پیمانہ مقدار پر مشتمل ہوتی ہیں۔ جڑی بوٹیوں کے علاج روایتی علاج کی تاثیر میں مداخلت کرسکتے ہیں یا ممکنہ ضمنی اثرات کو بڑھا سکتے ہیں ۔10 ان میں انگور ، سینٹ جان ورٹ (ہائپرکیم پرفوراتم) ، دودھ کا تھرسٹل (سیلیبوم ماریانیم) یا ہلدی (کرکوما لانگ) پر مشتمل تیاری شامل ہیں۔






Homeopathic remedies for breast cancer



Homeopathic remedies are organic substances that have been so highly diluted that there are very few molecules of the original substance remaining.

For cancer, homeopathic practitioners aim to stimulate immunity, lessen pain, and improve energy and overall well-being, especially if a person is grappling with the side effects of chemotherapy and radiation such as nausea, hot flashes, infections, and sores.4

Homeopathic products are dosed by sugar pellets containing the diluted substance, and they are placed under the tongue or used as drops, tablets, gels, creams, and ointments. Treatments are tailored to individuals, so it’s common for two people with the same condition to receive different treatments.

Symptom Management

Homeopathy may hold an allure for people hoping to avoid the side effects of conventional cancer treatment.5

In a research review published in 2009, scientists examined eight studies using homeopathic remedies in the treatment of cancer treatment-related side effects.4 One suggested that Traumeel S (a mouth rinse containing several homeopathic medicines) may alleviate mouth sores caused by chemotherapy. However, the review's authors also found that homeopathic remedies had no benefit over placebo in several of the studies.

In 2011, an observational study found that homeopathic treatments did improve the quality of life for some cancer patients.6 There also has been research suggesting that mistletoe, a semiparasitic evergreen shrub used in some homeopathic preparations, may help some cancer patients better tolerate chemotherapy.

Homeopathic treatments, which contain microscopic amounts of a substance are not the same as herbal remedies, which contain measurable amounts of a substance. Herbal remedies can interfere with the effectiveness of conventional treatments or potentially increase side effects.10 These include preparations containing grapefruit, St. John's wort (Hypericum perforatum), milk thistle (Silybum marianum), or turmeric (Curcuma longa).3

If you do want to include homeopathy or another type of CAM in your cancer treatment protocol, your oncologist should work in partnership with any alternative care doctor you see.

The National Center for Complementary and Integrative Health offers these precautions:

  • Don't substitute homeopathy for proven conventional care.
  • Don't postpone seeing a doctor while waiting to see if alternative cancer treatments work.
  • Bring homeopathic products you are using to a doctor's visit. Your healthcare provider can tell you whether they pose a risk of side effects or drug interactions.
  • If you are pregnant or nursing, consult a physician before using any homeopathic product.
  • Realize the use of medicinal plants in oncology is nothing to take lightly. Some herbs can be dangerous, even causing liver damage.
  • A Word From Verywell

    Based on rigorous human studies, it is known that there is no substitute for modern cancer treatment. However, there may be room in your treatment plan for alternative approaches, as long as:

    • They compliment and do not interfere with the effectiveness of your other therapies
    • You work with a practitioner knowledgeable in their proper use
    • You are open about these treatments with your entire medical team


0 comments:

Post a Comment

THANKS, ANSWER YOU SOON

Copyright © All Rights Reserved

Designed by THE GREAT HOMEO CLINIC